Wednesday, August 7, 2013

انگریزوں کی باقیات سے آزادی کے لئے جنگ


عبد الحمید یوسف پندرہ اگست انیس سو سینتالیس کو ہم نے انگریزوں سے آزادی حاصل کر لی تھی لیکن ان کی باقیات سے آزادی حاصل کرنے میں ہم ابھی تک ناکام ہیں۔ انگریزوں نے زبان، علاقہ، ثقافت اور مذہب کی بنیاد پر لڑا ؤ اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کر کے ہندوستان پر قبضہ کیا تھا۔ انگریزی سامراج سے نجات حاصل کرنے کے لئے بدیر ہی سہی یہاں کی اکثریت نے مذہبی، لسانی اور علاقائی تفریق سے اوپر اٹھ کر متحد ہ لڑائی شروع کی۔ لیکن جب آزادی کی صبح طلو ع ہوئی تو جو دیکھنے کو ملا وہ بہت خوش کن نہیں تھا۔ ہندوستانی نہ صرف یہ کہ آپس میں بری طرح بٹ چکے تھے بلکہ ان کے اندر کی حیوانیت نے انھیںایک دوسرے کا گلا کاٹنے کا جواز بھی عطا کر دیا تھا۔ اور ہم آج تک مختلف بنیادوں پر لڑتے چلے آ رہے ہیں۔اگر کہیںکشمیر کے نام پر لڑائی ہے تو کہیں مبینہ طور پر بنگلہ دیشی مہاجرین سے نجات کی لڑائی ۔ کہیں پاکستانی شدت پسند تحریکوںسے مبینہ طور پرتعلق رکھنے والے نوجوانوں کے خاتمہ کی لڑائی ہے تو کہیںمذہب کے نام پر فرقہ وارانہ فسادات ۔اگر تقسیم کا سانحہ عمل میں نہ آیا ہو تا( تقسیم ہند کے ضمن میں انگریزوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے )تو نہ کوئی بنگلہ دیشی مہاجر ہوتا اور نہ ہی کوئی سرحد پار کی دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھتا۔ تقسیم کی وجہ سے ہمارا وہ اتحاد جس کی وجہ سے ہمیں آزادی ملی تھی پارہ پارہ نہ ہوا ہوتا تو شاید مذہب کے نام پر ہم اتنے دور دور نہ رہتی۔ آزادی کے بعد سے چھ دہائی سے زائد کاعرصہ گزر چکا ہے لیکن ہمیںمل جل کر رہنے کا ہنرنہیں سیکھنے دیا گیا۔سیاسی پارٹیوں اور عوام الناس پر اپنی بر تری بر قرار رکھنے کے خواہش مندکچھ مذہبی رہنماؤں نے اپنے مفاد کی خاطر ہمیں انھیں لوگوں سے الجھائے رکھا جن کے ساتھ ہم اپنی زندگی کے روز و شب گزارتے ہیں۔ نتیجہ فرقہ وارانہ فسادات کی صورت میں سامنے ہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستانیوں کی اکثریت، چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، امن پسند ہے اور شر پسند عناصر کی تعداد کم ہے ۔لیکن تالاب کے سارے پانی کو گدلا کرنے کے لئے صرف چند مچھلیاں کافی ہوتی ہیں۔ ایک چھوٹے سے گروہ کی امن مخالف سرگرمیاں پورے ملک کے امن کو غارت کر دیتی ہیں۔ فرقہ واریت انگریزوں کے دور میں بھی تھی مگرجب بات آزادی کی آئی تو یہ ہمارے درمیان اتحاد کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ مجاہدین آزادی کے اس خواب کو پورا کرنے میں ہم ابھی تک ناکام ہیں کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہو گا۔دستور کے معماروں نے تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی رواداری کو بر قرار رکھتے ہوئے ہندوستان کو سیکولر بنیادوں پر استوار کیاتھا ۔ ہمارا دستور فرقہ پرستی کی بجائے بقائے باہم اور امن و آشتی کی وکالت کرتا ہی۔ لیکن فرقہ وارانہ فسادات اب بھی ہوتے ہیں۔ فسادات نے ہمارے درمیان حائل عدم اعتماد کی خلیج وسیع کیا ہی۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان فسادات کو سیاسی سر پرستی حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے فسادی بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال شرپسند عناصر کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ایک فساد کے ختم ہو جانے کے بعد دوسرے فساد کے ہونے کا خدشہ ہمیشہ بر قرار رہتا ہی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ماضی میں ہمیں جبل پور، تیل چری، جمشید پور، بھیونڈی، مرادآباد، بھاگلپور اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہونے والے فسادات جھیلنے پڑے تھے تو ہمیں ۲۰۰۲ ء گجرات کے بھیانک فسادات سے بھی گزرنا پڑا ہی۔ کوسی کلاں، پرتاپ گڑھ اورآسام کے فسادات تو ابھی چند دنوں کی بات ہیں۔ مزید یہ کہ ہر سال بڑے تہواروں کے موقع پر مختلف علاقوں میں لوگ ایک دوسرے سے دست و گریباں تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ کوسی کلاں اور پرتاپ گڑھ کے فسادات مذہب کی بنیاد پر ہوئے تھی۔ کوسی کلاں میں نمازیوں کے لئے رکھے گئے مشروب کو دوسرے فرقہ سے تعلق رکھنے والے کسی شر پسند نے گد لا کر کے مسلمانوں کو مشتعل کر دیا تھا۔ انتظامیہ حالات کو قابومیں نہ کر سکی اور تقریبا سات لوگ موت کے گھاٹ اتر گئی۔ اسی طرح سے استھان (پرتاپ گڑھ) فساد بھی ہندو بنام مسلم تھا۔ہوا یہ کہ گاؤں کی ایک پاسی لڑکی کا عصمت دری کے بعد قتل کر دیا گیا ۔ قتل کا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا تھا۔حالات نارمل ہو گئے تھے لیکن رپورٹوں کے مطابق گاؤں کی پنڈت برادری سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے دلتوں (پاسیوں) کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا اور پھر فساد میں مسلمانوں کے گھروں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا ۔ ایک گھر جہاں مسلمان پناہ لئے ہوئے تھے اسے بھی فسادیوں نے جلانے کی ناکام کوشش کی۔ واضح رہے کہ کوسی کلاں اور پرتاپ گڑھ اتر پردیش میں ہیں جہاں سماجوادی پارٹی کی حکومت ہی۔ مسلمانوں نے اکھلیش یادو پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کی پارٹی کو بھاری اکثریت سے کامیاب کیا تھا۔ بعض تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یہ فسادات کرائے گئے تھے تا کہ سماجوادی پارٹی سے مسلمانوکے اعتماد سے محروم ہو جائے اور اسے اگلے پارلیمانی الیکشن میں خاطر خواہ کامیابی نہ ملی۔ آسام میں ہونے والے فساد کی وجہ بنگلہ بولنے والے مسلمان بتائے جاتے ہیں جنہیں بنگلہ دیشی مہاجرین سمجھا جاتا ہی۔مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ مہاجر نہیں ہیں بلکہ وہ تو وہاں کے مقامی باشندے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مقامی بوڈو قبائلی ان مسلمانوں کی تئیں زمینوں اور ملازمتوں کو لے کر تحفظات کا شکار ہیں۔ ہندوستان میں سکونت پذیر بہت سارے لوگوں کو بنگلہ دیشی گرداننے کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہی۔سیاسی پارٹیوں نے الیکشن میں اپنے فائدے کی خاطر اسے ایک پیچیدہ مسئلہ بنا دیا ہی۔اگر ایک ہی گاؤں میں بسنے والے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بر سرپیکار ہوتے رہتے ہیں اور سیاست دانوں کی مطلب بر آوری ہوتی رہتی ہی، تو پھر اس مسئلہ کا حل کیوں نکالا جائی؟ سیاسی مفادات کی خاطر عام انسانوں کی جان و مال کی ضیاع سستا سودا سمجھا جاتا ہی۔ اکا دکا فساد ات کو چھوڑ کر دیگر فساد سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ملک کی دو بڑی پارٹیوں پر اس الزام کو جھوٹ نہیں قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ مختلف مقاصد کے حصول کے لئے فسادات کرواتی ہیں۔ ہندتوا میں یقین رکھنے والی بی جے پی اگر فسادات سے مسلمانوں کو نقصان پہنچاکر ہندوؤں کو خوش کرنے کے الزام سے بری نہیں ہے تو کانگریس بھی ایسے الزام کا سامنا کر رہی ہے کہ وہ فسادات کے ذریعہ اقلیتوں کے دلوں میں خوف پیدا کر تی ہے اور پھر متاثرین کا سب سے بڑے مسیحا بن کر الیکشن میں ان کی ہمدردی حاصل کرتی ہی۔بی جے پی کے مقابلہ کانگریس کے دور ِ اقتدار میں سب سے زیادہ فسادات ہوئے ہیں۔ جب انسداد فرقہ وارانہ بل پیش کرنے کی بات آئی تواس کی سب سے زیادہ مخالفت بی جے پی نے یہ کہہ کر کی کہ یہ بل اکثریتی فرقہ کے خلاف ہی۔ اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ فسادات در اصل اکثریتی فرقہ کے لوگ ہی کرواتے ہیں۔ ہمارے آباء و اجداد نے انگریزوں کی غلامی کے خلاف دونوں مسلح اور غیر مسلح جہاد کیا تھا۔ اس کے لئے انھیں جانی و مالی قربانیاں پیش کرنا پڑی تھیں۔ آج ہمیں دیگر مسائل سمیت فسادات اور اس کے اصل سبب متعصب ذہنیت کے خلاف علمِ جہاد بلند کر نا ہوگا تا کہ ہمارے جان و مال محفوظ ہو سکیں۔ ہمیں فسادات سے آزادی کی طویل جنگ لڑنی ہو گی۔ بڑے پیمانے پر کرائے جانے والے منظم فساد کے لئے خاص طور سے خفیہ ایجنسیوں کی گرفت کی جانی چاہئے کہ اتنے بڑے پیمانے پر رچی جانے والی ملک مخالف سازش کی انھیں بھنک بھی نہیں لگی، یا اگر انہیں معلوم بھی ہوا تو کچھ وجوہات کی بنا پر اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ بیشک متعلقہ انتظامیہ کی بر وقت کار روائی سے ایسے فسادات پر بھی تھوڑے وقت میں قابو پا کر انھیں طویل ہونے سے بچایا جا سکتا ہی۔ لیکن چھوٹے پیمانے پر ہونے والے فسادات جو کہ کسی وقتی حادثہ کی وجہ سے واقع ہوتے ہیں ان کے لئے مقامی انتظامیہ ذمہ دار ہی۔ اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ ایک حادثہ جو صرف و قتی کشیدگی کا سبب بن سکتا تھا انتظامیہ کی لا پرواہی سے جان ومال کے بھاری نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو جاتا ہی۔ مندروں میں گائے کا گوشت پھینکنے اور تہواروں کے موقع پر مسجدوں سے گزرتے ہوئے بلا وجہ ہڑ بونگ اور اشتعال انگریز نعرے بازی کے ذریعہ پیدا شدہ کشیدگی کو مقامی پولس بآسانی قابو میں کر سکتی ہی۔ لیکن جب یہی پولس اپنی آنکھوں کے سامنے کشیدگی کو فرقہ وارانہ تصادم میں تبدیل ہونے بلکہ ٹکراؤ کی صورت میں کسی خاص فرقہ کی طرفداری کرتی ہے تو اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ دونوں طرف کے لوگوں کا جانی اور مالی خسارہ ہو۔ J در اصل پولس اور ان کے اوپر کے دیگر افسران میں کچھ لوگ ابھی بھی ایسے ہیں جو فرقہ پرست ذہنیت کے حامل ہیں۔ وہیں سیاسی پارٹیاں بھی اپنے مفاد کی خاطر عوام الناس کو لڑانے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ اور یہی انگریزوں کی باقیات ہیںجن سے ہمیں نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہی۔ فسادات کو روکنے میں تساہلی سے کام لینے والے افسران کی سرکوبی بہت ضروری ہے ۔ابھی تک کے مشاہدات بتاتے ہیں کہ محض تبادلہ کر دینا کار گر ثابت نہیں ہوتا ہی۔ اسی طرح سے فساد کے اصل ملزمین کو سزا نہیں دی جاتی ہی۔ چاہے وہ ممبئی کے فسادات ہوں یا گجرات کے ، فساد کے اصل ملزمین آزاد گھوم رہے ہیں۔ معرف سماجی کارکن تیستا سیتلواد نے ایک انٹر ویو میں کہا ہے کہ ’’جب تک سزا سے مستثنی کا کلچر ختم نہیں ہوتا ، فرقہ وارانہ فسادات کے قصور واروں کو سزا نہیں دی جاتی، ہم یہ پیغام نہیں دے پاتے کہ تقسیم کی سیاست ہم برداشت نہیں کریں گے تب تک ایسے واردات کو روکنا ممکن نہیں ہی‘‘ موصوفہ مزید کہتی ہیں کہ فسادات کی روک تھام کے لئے ’’سب سے پہلے انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل کو پاس کرانا ضروری ہی۔ اس بل میں اقلیتوں اور دلتوں کو خصوصی تحفظ فراہم کرایا گیا ہے جبکہ بیوروکریٹس اور پولیس اہلکاروں کو سیاسی آقاؤں کے سامنے سر خم تسلیم کئے بغیر قانون پر عمل آوری کے لئے پابند کیا گیا ہی۔ نیشنل ایڈوائزی کونسل (این اے سی) جس کی میں بھی ممبر ہوں نے اس بل کا مسودہ تیار کیا ہے ، مگر یہ آج بھی وزارت داخلہ کے زیر التوا ہے ۔ ۔۔بیوروکریسی سے تعصب کو ختم کرنا ہو گااور یہ تبھی ممکن ہے جب عوامی سطح پر مضبوط عزائم کا اظہار ہو۔‘‘